اور ان ہی ایّام میں جب قاضی انصاف کیا کرتےتھے ایسا ہوا کہ اس سر زمین میں کال پڑا اور یہوادہ کے بیت لحم کا ایک مرد اپنی بیوی اور دو بیٹوںکو لیکر چلا کہ موآب کے ملک میں جا کر بسے۔
اس مرد کا نام الیملک اور اسکی بیوی کا نام نعومی تھا اور اسکے دونوں بیٹوں کےنام محلون اور کلیون تھے ۔ یہ یہوداہ کے بیت لحم کے افراتی تھے ۔ سو وہ موآب کے ملک میں آ کر رہنے لگے ۔
تب وہ اپنی دونوں بہووں کو لیکر اٹھی کہ موآب کے ملک سے لوٹ جائے اس لیے کہ اس نے موآب کے ملک میں یہ حال سنا کہ خداوند نے اپنے لوگوں کو روٹی دی اور یوں انکی خبر لی۔
اور نعومی نے اپنی دونوں بہووں سے کہا کہ تم دونوں اپنے اپنے اپنے میکے کو جاؤ جیسا تم نے مرحوموں کے ساتھ اور جیسا میرے ساتھ کیا ویسا ہی خداوند تمہارے ساتھ مہر سے پیش آئے۔
اے میری بیٹیو لوٹ جاؤ اور اپنا راستہ لو کیونکہ میں زیادہ بڑھیا ہوں اور شوہر کرنے کے لائق نہیں ۔ اگر میں کہتی کہ مجھے اُمید ہے بلکہ اگر آج کی رات میرے پاس شوہر بھی ہوتا اور میرے لڑکے پیدا ہوتے۔
تو بھی کیا تم انکے بڑے ہونے تک انتظار کر تیں اورشوہر کر لینے سے باز رہیتیں ؟ نہیں میری بیٹیو میں تمہارے سبب سے زیادہ دلگیر ہوں اس لیے کہ خداوند کا ہاتھ میرے خلاف بڑھا ہوا ہے۔
روت نے کہا تو منت نہ کر کہ میں تجھے چھوڑوں اورتیرے پیچھے سے لوٹ جاؤں کیونکہ جہاں تو جائیگی میں جاؤنگی اور جہاں تو رہیگی میں رہونگی تیرے لوگ میرے لوگ اور تیرا خدا میرا خدا۔
میں بھری پوری گئی تھی اور خداوند مجھ کو خالی پھیر لایا ہے۔ پس تم کیوں مجھے نعومی کہتی ہو حالانکہ خداوند میرے خلاف مدعی ہوا اورقادر مطلق نے مجھے دکھ دیا ؟ ۔